محلے کے آخر میں ایک سنسان گلی تھی جس کے دونوں اطراف میں ٹوٹی پھوٹی دیواروں تھیں۔ اور اس کو وہاں کے لوگ آندھی گلی کہتے تھے دب میں بھی وہاں کا ماحول ڈرانا لگتا تھا اور رات میں تو اس طرف کوئی جانے کا سوچتا بھی نہ تھا۔
لوگ کہتے تھے کہ وہاں کچھ عرصہ پہلے ایک پراسرار واقعہ ہوا تھا جس کے بعد وہاں روشنی لگانا بیکار سمجھا گیا۔ کہا جاتا ہے کی وہاں ایک بوڑھا رہتا تھا جو وہاں اچانک لاپتہ ہو گیا اور اس کے بعد اس گلی میں اس کی آہٹیں سنائی دیتی ہیں۔
اس گلی میں جانے کی ہمت کس میں بھی نہ تھی لیکن ایک لڑکا تھا جسنے ٹھان لیا کہ وہ اس گلی کے راز کا پتہ لگائے گا۔ پھر اس نے ایک رات وہاں جانے کا فیصلہ کیا اس کے پاس ایک ہی چھوٹی سی ٹارچ تھی۔ وہاں اس گلی کی جانب بڑھا اور وہاں پہنچ کر وہ آگے چل پڑا ۔
جیسے جیسے ہی وہ آگے بڑھ رہا تھا گلی مزید خوفناک ہوتی جا رہی تھی۔ اور اندھیرا مزید بڑھ رہا تھا مگر علی حوصلہ کر کے آگے بڑھا اور اس کو بھی وہاں کس کے قدموں کی آواز اور آہٹ سنائی دی ۔ لیکن اس نے ہمت کی اس کو ڈر لگ رہا تھا۔ لیکن وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس گلی کے آخر میں پہنچ گیا جہاں اس کو ایک پرانا دروازہ ملا۔
وہ دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا اور اس دروازے کا پرانا رنگ سبز تھا۔ جب علی اندر داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ نیچے فرش پر کاغذات بکھرے پڑے ہیں اور دیواروں پر مٹی سے بھری تصاویر ہیں۔ ان میں ایک بوڑھے شخص کی تصویر بھی تھی جس کی آنکھیں جاندار لگ رہی تھیں۔
جیسے ہی وہ اس تصویر کے قریب ہوا اس کو آواز آئی کہ سچ جاننا اتنا آسان نہیں ہے پھر اچانک وہ زمین پر گر پڑا اور اگلی صبح لوگوں کو اس گلی کے پاس سے صرف ایک ٹارچ ملی اور گلی کا راز راز ہی رہ گیا۔